حضرت آیت اللّٰہ العظمیٰ سیّد علی خامنہ ای دامت برکاتہ کی نگاہ میں

بسم اللّٰہ الرّحمن الرّحیم

حضرت آیت اللّٰہ العظمیٰ سیّد علی خامنہ ای دامت برکاتہ
کی نگاہ میں

انقلاب اسلامی ایران کی خصوصیات

ترجمہ:علامہ سید صادق تقوی

پہلی خصوصیت:دینی ،اخلاقی،معنوی اور ایمانی اقدار کا اِحیاء

دنیاکے دوسرے انقلابات زیادہ تر مادی افکار کی بنیادوں پر اپنے وجود کو جنم دیتے ہیں ،ممکن ہے کہ یہ افکار ونظریات،مادی ،مکتبی،مسلکی یعنی مارکسازم و کمیوزم کے افکار و خیالات ہوں یا یہ کہ کسی انقلاب کے افکار کسی بھی مادی مکتب پر اعتقاد وایمان نہ رکھتے ہوں بلکہ دوسرے مادی نظریات مثلاًوطن پرستی اور وطن دوستی کی بنیادوں پر قائم ہوں۔
تمام انقلابات اِسی طرح ہیں ،حتیٰ وہ انقلابا ت جو شروع میں مذہبی اور دینی تھے لیکن آخر میں اپنے دینی ہونے سے خارج ہو گئے ،جیسے بعض ایشیا اورافریقہ کے ا ممالک میں انقلابات اپنے مرحلہ اول میں مساجد یا دینی مدارس سے شروع ہوئے لیکن جب اُنہوں نے رُشد حاصل کیا تو چونکہ اُن کے مذہبی افراد،ایک کا مل و جامع قیادت کی صلاحیت و توانائی سے بہرہ مندنہیں تھے لھذا دوسروں نے درمیان میں آکر زمام امور کو اُن کے ہاتھ سے چھین لیا اوراُن کے انقلاب کو مذہبی و دینی حالت سے نکال کر بے دینیت کی جانب لے گئے۔
دنیا کا کو ئی بھی انقلاب اِس عمو می قاعدے سے خالی نہیں ہے لیکن ہمارا ملک ایسا نہیں ہے،ہمارا انقلاب ہمارے مذہبی گھر یعنی مسجد و مدرسہ سے شروع ہوا اور اُس نے اپنے دینی و مذہبی ہونے کی صفت اور دینی و معنوی اقدار کو اپنے اندار مضبوط بنایا اور اتنا مستحکم ہو گیا کہ اُس نے ایسے افراد کو اپنی جانب جذب کر لیا کہ معمولاً کسی انقلاب میں ایسے افراد میدان عمل میں نہیں آتے ہیں۔ہمارے اسلامی انقلاب نے بوڑھے وضعیف العمراورسیاسی مسائل سے لا علم افراد اور دیہاتوں اورگاؤں میں رہنے والے لوگوں کو بھی انقلاب ومبارزے کے میدان میں کھینچ لا یا۔دوسری جانب سے مذہبی روح نے اِس انقلاب میں یہ اثر دکھایا کہ یہ انقلاب کم ترین جانی و مالی اور دیگر نقصانات سے وجود میں آئے اور یہ بہت اہم ترین نکتہ ہے اورخصوصاً وہ افراد جنہوں نے اکتوبر کے روسی انقلاب کا مطالعہ کیا ہے وہ اِس مطلب کو اچھی جانتے ہیں۔
لا دینیت کی بنیادوں پر آنے والے انقلابات دنیااپنی انقلابی تحریک کی اوج و بلندی میں بہت زیادہ مالی او رجانی نقصانات کا سبب بنتے ہیں،وجہ یہ ہے کہ چونکہ کہ عوامی تحریک کسی قانون اور قاعدے وضابطے کی پروا نہیں کرتی ہے اور سکی نظام کو سر نگوں کرنے کے بعدجب تک کوئی اور حکومت و نظا م اُس کی جگہ نہیں لیتا عوام اپنے اجتماعی معا ملات ،انتقام اور برتاؤ میں بغیر کسی روک ٹوک کے عمل کرتے ہیں۔انقلاب روس میں با لکل یہی چیز سامنے آئی انتقام ،سوء استفادہ اور بے گناہ افراد کا قتل عام اوربے شمار مالی نقصانات!
لیکن ہمارے اسلامی انقلاب میں ایسی کوئی چیز سامنے نہیں آئی ،جہاں شہر تہران کے لوگو ں نے اپنی دکانیں بند کر کے اپنے کاروبار زندگی کو مفلوج بنا یا اور میدان عمل میں کود پڑے تو دوسری جانب سے ہمارے گاؤں اور دیہات کے لوگ اِن شہری لوگوں کیلئے روٹیاں لے کر آئے اور اُن سے مکمل اظہار ہمدردی کیا۔یہاں لوگوں کا غم و غصہ صرف ایک مادی چیز کیلئے نہیں تھا بلکہ یہاں دین،خدا اور معنویت کا مسئلہ تھااوریہ وہ چیز تھی کہ جس نے لوگوں کی زندگی پر ایک دوسری ہی طرح اثرات مرتب کیے تھے اور اُ ن کی فعالیت کو ایک نئی جہت و شکل دی ۔
جب انقلاب کا میاب ہو گیا تو ایک حکومت وجود میں آئی جو انقلا ب کی بنیادوں پر ایک اسلامی حکومت تھی۔اسلامی جمہوریہ کے قیام کے بعد بھی لوگوں نے دائیں اور بائیں باز و کی جماعتوں کی جانب رُخ نہیں کیا۔غرضیکہ دین ،ہمار ے انقلا ب کی بنیادی خصوصیت تھااور آج بھی ہے،ایسا نہیں تھا کہ انقلاب کی ابتدائی چند ایام میں دین اِس انقلاب کی خصوصیت رہا اور اُس کے بعد اِس انقلاب کی حقیقت و ماہیت ہ تبدیل ہو گئی ہو!
ہمارے اسلامی انقلاب کی سب سے پہلی بات یہ تھی کہ اِس انقلاب کی کامیابی کے ساتھ ہی معنوی اور روحانی اقدار کی حاکمیت کا آغاز ہوگیا ہے۔اُس وقت اِن باتوں کو سمجھنے اور اُسے ہضم کرنے والے افراد کی تعداد بہت کم تھی چونکہ اُس وقت مادی فکر نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا، لیکن آج اِ س حقیقت کو سمجھنے والے افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے ۔آج پوری دنیا میں معنوی اور روحانی اقدار کا دوبارہ اِحیاء ہو رہا ہے اور بہت سی اقدار زندہ ہو چکی ہیں اور ساتھ ہی مارکس ازم اورمادیت کی حاکمیت جیسے بہت سے مادی افکار ونظریات اورزر و ظلم اورمیڈیا اور پرو پیگنڈے کی خطر ناک شکلیں اپنی نا توانی اور ناکامی کاکھل کر اظہار کر رہی ہیں۔
میں آپ تاریخ کے پڑھنے والوں سے صرف اتنا ہی کہوں گا کہ گذ شتہ چنددہائیوں سے دنیا روحانیت و معنویت کی جانب گامزن ہے البتہ اِس بنیادی تبدیلی کے اسباب وعوامل ہیں اور یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ جو نا شناختہ ہو اور وہ مجہول العلۃ ہو ۔گذشتہ دو صدیوں سے یعنی اُنیسوی اور بیسوی صدی جو اصطلاحاً روشن فکری،انسانیت کی جانب قدم اٹھانے اورعلمی اور صنعتی ہیش رفت و ترقی کی صدیا ں ہیں، دنیا لا دینیت اور معنویت سے دور ہو نے کی جانب سرعت سے آگے بڑھ رہی ہے اور اِس میں تھوڑا بہت فطری اور طبیعی عوامل کا بھی ہاتھ ہے ،اِس لئے کہ روشن فکر ی اور علمی اور صنعتی انقلابات کالازمہ یہی ہوتا ہے لیکن دنیا کی یہ حرکت کسی حد تک ایک جامع منصوبہ بندی کے مطابق بھی تھی۔
دنیا کی تمام بڑی طاقتیں اِس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ دین ومذہب کو تمام صفحہ عالم سے محو اور نیست و نابو د کر دینا چاہئے۔ایسا نہیں کہ وہ دین کے نام و نشان کو بالکل ہی محو کردیں بلکہ اُن کی کو شش ہے کہ دین کی حقیقت اور اُس کے حقیقی معانی کو نابود کردیں اگر چہ کہ اُس کا ظاہری نام و نشان با قی رہے۔اِن کی کوشش ہے کہ حقیقی ایمان کو نا بود کردیں اوراِس کام کیلئے کتنا روپیہ پیسہ پا نی کی طرح بہایا گیا ہے اورکتنے ہی افراد نے اپنے عقیدے اور یقین کی وجہ سے نہ کہ خیانت کی بنا پربشریت کیلئے ایمان کے نہ ہونے کو لازمی اور ضروری سمجھا ۔ اِن طاقتوں نے اِس مقصد کیلئے کتنی کتا بیں لکھیں ،ہنر اور آرٹ کا سہارا کیا،پروپیگنڈاکیا ،ظلم وستم کا راستہ استعمال کیا ،ڈالروں کے سیلاب کا رُخ اِس طرف موڑ دیا تا کہ معنویت و روحاینت خصوصاً اسلامی دنیا سے ختم اور نابو دکریں۔
اُس وقت ایسی دنیا میں کہ جہاں معنویت کو نابود کرنے کی بھر پور سازشیں جا ری ہیں ،دنیا کے ایک حساس نقطے میں اسلام ومعنویت کی بنیادوں پر ایک اسلامی حکو مت و اسلامی نظام جنم لیتے ہیں۔یہ با ت اچھی جان لیجئے کہ اگر ہمار ااسلامی انقلاب کامیاب نہیں ہو تا تو ایرانی بھی اسلامی جمہوریہ نہیں بنتااوردنیا میں رائج کمیونسٹ نظام اتنی جلدی نا بود نہیں ہوتے۔آج دنیا میں اجو ایک بہت بڑی تبدیلی آئی ہے اُس کی وجہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ ،اسلامی انقلاب کی کامیابی اورمعنوی اقدار کا دنیا میں زندہ ہو نا ہے۔یہ کو ئی دعویٰ نہیں ہے بلکہ یہ ایک تحلیل و تجزیہ ہے اور میں اِس پر یقین رکھتا ہوں۔
آج مشرقی یورپ اور پورے مشرق میں جو کچھ بھی حالات رونما ہو رہے ہیں اُن سب کی بازگشت اسلامی انقلاب کے معجزے کی طر ف ہو تی ہے ۔ جب پو لینڈ میں تحریک شروع ہوئی تو ہمارے اسلامی انقلاب کوکامیاب ہوئے ابھی چند ماہ ہی ہو ئے تھے تو وہاں ایک مقامی انجمن نے مخفیا نہ طور پر اپنی فعالیت کا آغاز کیا۔اِس انجمن کی پولینڈ حکومت سے جنگ اور مقابلہ اِس با ت پر تھا کہ وہ اپنے دینی اور مذہبی رسومات کو بجا لانا چاہتے تھے اور وہاں کی کیمو نسٹ حکومت اُنہیں اِس با ت کی اجازت نہیں دیتی تھی۔جب ہم نے اِس واقعہ کو سنا تو ہم نے اسلامی انقلاب کی اعلیٰ رکنی کمیٹی میں اِس مسئلے کو ذکر کیا اور تعجب بھی کیا کہ ایک کیمونسٹ حکومت اورایک سو فیصد مخالفِ دین ملک میں ایسی کسی چیز کا مطالبہ کیا جا تا ہے ۔آخر کون تصور کر سکتا تھا کہ اِس حکومت اور وہاں کے کیمونسٹ معاشرے کا یہ حال ہو گا کہ وہ اندر سے اتنے کھوکھلے ہیں؟!
پولینڈ میں تقریباً تیس سال سے لا دینی نظام ملک پر مسلط ہے اور دوسرے ممالک میں تو پچاس ،ساٹھ یا ستّر سال سے دین کے خلاف باتیں کی جا رہی تھیں بلکہ اُنہوں نے تو اپنے ملک میں آثا رِ قدیمہ کا ایک میوزیم بھی بنا لیا تھا کہ جس میں اُنہوں نے خدا کے خلاف اورخدا کی نفی کرنے والی تمام چیزوں کو ایک جگہ جمع کیاہوا تھاتا کہ یہ دین وخدا کے خلاف چیزیں وہاں کی عوام کے سامنے رہیں اوراُنہیں عبرت کے طور پر اُنہیں دیکھتے رہیں!!اِس پولینڈ میں اچانک ایک مزدور تحریک چلتی ہے جس کا نعرہ یہ تھا کہ ہم کلیسا جا کر عبادت کرنا چاہتے ہیں اورحکومت ہمیں اِس بات کی اجازت نہیں دیتی ہے۔

0 comments:

Click here